سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ ریاستوں کے گورنر صاحبان صدر جمہوریہ کی منظوری کیلئے جو ریاستی بِل ریزرو رکھتے ہیں، اُن پر صدر جمہوریہ کو تین مہینے کے اندر اندر فیصلہ کرنا چاہیے۔ جسٹس جے بی Pardiwala اور جسٹس مہادیون پر مشتمل بنچ نے یہ وضاحت کی ہے کہ اگر اِس مدت سے زیادہ تاخیر ہوتی ہے تو اِس کی درست وجوہات فراہم کی جانا چاہئیں اور متعلقہ ریاستی سرکار کو اِس کی جانکاری دی جانی چاہیے۔
عدالت عالیہ کی بنچ نے تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کے اُس فیصلے کو رد کردیا جس کے تحت انہوں نے 10 بِلوں کی منظوری التواء میں رکھی تھی۔ اِس طرح بنچ نے یہ فیصلہ دیاہے کہ صدر جمہوریہ کو اُن بِلوں پر فیصلہ کرنے میں تین مہینے سے زیادہ کا وقت نہیں لینا چاہیے جو انہیں گورنر نے بھیجے ہیں۔
مذکورہ بنچ نے یہ بھی کہاہے کہ اگر مقررہ مدت کے اندر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے تو ریاستی سرکار کو عدالت سے رجوع کرنے اور حکم نامہ جاری کرانے کا حق حاصل ہے۔
یہ فیصلہ کَل شام عدالت کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیاگیا ہے۔ اِس میں ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ قانون سازی سے قبل خاص طور پر حساس آئینی معاملات پر مرکزی سرکار کے ساتھ تبادلہئ خیال کریں۔ اسی طرح مرکزی سرکار سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ریاستوں کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے اور تیزی کے ساتھ کارروائی کرے۔
آئینی وجوہات کی بنا پر کسی بِل کے التواء میں رہنے کی صورت میں، عدالت نے یہ سفارش کی ہے کہ صدر جمہوریہ دفعہ 143 کے تحت سپریم کورٹ سے صلاح لے سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاہے کہ وہ دفعہ 200 کے تحت گورنر کیلئے کوئی قدم اٹھانے کی خاطر وقت کی حد مقرر کرکے اُن کے عہدے کو کمزور نہیں کر رہی ہے بلکہ انہیں پارلیمانی جمہوریت کی مُسلِّمہ روایات کے عین مطابق کام کرنا چاہیے۔
دفعہ 200 کے تحت گورنر کو انہیں پیش کیے گئے بِلوں کو منظوری دینے، منظوری کو التواء میں رکھنے یا اِسے صدر جمہوریہ کے غورو خوض کیلئے ریزرو رکھنے کا اختیار ہے۔ x