سپریم کورٹ نے آج کہا ہے کہ عدالت، آئین کی دفعہ200/201 کے تحت بلوں کو منظوری دینے کی غرض سے صدر جمہوریہ اور گورنروں کے فیصلوں سے متعلق کوئی ٹائم لائن نافذ نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس بی آر Gavai کی صدارت والی پانچ ججوں پر مشتمل ایک آئینی بینچ نے اتفاقِ رائے سے کہا کہ یہ بات، وفاقیت کے مفاد کے خلاف ہوگی کہ اگر دفعہ 200 کے تحت عمل آوری کے مناسب طریقے پر عمل کیے بغیر، جس کی رُو سے گورنر کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسمبلی کی جانب سے منظور شدہ بلوں کو اپنی منظوری دے، گورنر کو بلوں کو روکنے کی اجازت دے دی جائے۔ آئینی بینچ کی یہ رائے ایک صدارتی ریفرینس کے جواب کے طور پر سامنے آئی ہے، جس میں گورنروں اور صدر جمہوریہ کی جانب سے سے منظوری کے سلسلے میں ٹائم لائن سے متعلق وضاحت طلب کی گئی تھی۔
یہ وضاحت، تمل ناڈو بلوں سے متعلق معاملے میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کی ایک بینچ کے بعد طلب کی گئی تھی، جس میں اُس بینچ نے گورنر آر این روی کی جانب سے10 بلوں پر طویل مدت تک کوئی کارروائی نہ کیے جانے کو غیر قانونی اور یکطرفہ قرار دیا تھا اور قانون سازوں کی جانب سے منظور شدہ بلوں کی صدر نیز گورنروں سے منظوری کیلئے 3 مہینے کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔