سپریم کورٹ نے وقف قانون پر روک لگانے سے انکار کردیا ہے لیکن وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی بعض دفعات کو فی الحال موقوف کردیا ہے۔ عدالت نے اُس Clause پر روک لگادی ہے، جس کے تحت کسی شخص کو اِملاک، وقف میں دینے سے قبل پانچ سال سے ایک مسلم کے طور پر مذہب پر عمل کرنے والا ہونے کی ضرورت تھی۔ عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ یہ Clause اُس وقت تک معطل رہے گا، جب تک ریاستی سرکاریں اس طرح کی شرائط کے تعین کیلئے ضابطے مرتب نہیں کرتیں۔
عبوری حکم کا اعلان کرتے ہوئے بھارت کے چیف جسٹس بی آر گَوئی اور جسٹس Augustine George مسیح پر مشتمل ایک بینچ نے کہا کہ اُس نے ہر سیکشن کو چیلنج کرنے کے معاملے پر غور کیا ہے اور پورے قانون پر اِسٹے دینے کا کوئی کیس نہیں بنتا۔
اس کے علاوہ اُس بندوبست پر بھی روک لگائی گئی ہے، جس کے تحت سرکار کے نامزد افسر کو اِس تنازعے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت تھی کہ آیا سرکاری املاک پر وقف پراپرٹی کا ناجائز قبضہ ہوا ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں عدالت نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ایگزیکیٹو افسر شہریوں کے حقوق کے تعلق سے فیصلے نہیں کرسکتے، کیونکہ اس سے اختیارات کو علیحدہ رکھنے کی خلاف ورزی ہوگی۔
عدالت نے اس طرح کی متنازعہ املاک پر تیسرے فریق کے حقوق قائم کرنے کو بھی اُس وقت تک کیلئے محدود کردیا، جب تک کہ متعلقہ ٹرائبیونل معاملے کا فیصلہ نہیں کرلیتے۔
عدالت عالیہ نے وقف اداروں میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کی دفعہ پر بھی توجہ دی ہے۔
وقف بورڈز میں غیر مسلم اَرکان کو نامزد کئے جانے سے متعلق دفعہ پر کوئی روک نہیں لگائی گئی ہے۔ البتہ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے، بورڈ کا Ex-Officio ممبر کوئی مسلم شخص ہونا چاہئے۔ عدالت عالیہ نے یہ بھی کہا کہ مرکزی وقف کونسل کیلئے 4 سے زیادہ غیر مسلم ارکان نہیں ہونے چاہئے، جبکہ ریاستی وقف بورڈ کیلئے تین سے زیادہ غیر مسلم ارکان نہ ہوں۔
عدالت عالیہ نے یہ وضاحت کی ہے کہ اُس کا مشاہدہ اور رائے، سَرسری نوعیت کے ہیں اور یہ فریقوں کو متعلقہ ایکٹ کے جواز کو چیلنج کرنے کے سلسلے میں مزید عرضداشت پیش کرنے سے نہیں روکتیں۔
Site Admin | September 15, 2025 3:03 PM
سپریم کورٹ نے وقف قانون پر روک لگانے سے انکار کردیا ہے۔ عدالت نے پانچ سال سے مذہبِ اسلام پر عمل کرنے سے متعلق دفعہ سمیت وقف ترمیمی ایکٹ- 2025 کی بعض دفعات کو موقوف کردیا ہے
