سپریم کورٹ نے آج وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والی کئی عرضداشتوں کی سماعت کرتے ہوئے کوئی عبوری حکم جاری نہیں کیا۔ مرکز نے سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے تین نکات پر اپنے دلائل تیار کرنے کی غرض سے مزید وقت طلب کیا ہے۔ سپریم کورٹ کَل اِس معاملے کی سماعت کرے گا۔
چیف جسٹس سنجیو کھنّہ اور جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل ایک بنچ نے مرکز کی جانب سے پیش ہونے والے سولیسٹر جنرل تشار مہتا سے سوال کیا کہ ”استعمال کرنے والے کی جانب سے وقف“ کو کس طرح نامنظور کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کئی افراد ایسے ہوں گے، جن کے پاس اس طرح کے اوقاف کو رجسٹر کرانے کیلئے درکار دستاویزات نہیں ہوں گے۔
تین ججوں پر مشتمل بنچ نے نئے وقف قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر عبوری فیصلہ دئے جانے کے بارے میں غور کیا۔ بنچ نے تین اہم نکات اٹھائے۔ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالتوں کی جانب سے جن املاک کو وقف قرار دیا گیا ہے، انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جاسکتا، چاہے وہ ”استعمال کرنے والے کی جانب سے وقف“ قرار دی گئی ہوں یا ”Deed کے ذریعے وقف قرار دی گئی ہوں“۔
عدالت نے مزید کہا کہ وہ ترمیمی ایکٹ کی اِس شق کے متعلق حکم دے گی کہ اُس شق پر عمل آوری نہ کی جائے، جس کے مطابق کسی وقف املاک کو اِس صورت میں وقف نہیں سمجھا جائے گا، کہ کلکٹر اِس بات کی انکوائری کررہے ہوں کہ آیا کہ یہ جائیداد سرکاری زمین تو نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ حکم بھی دے گی کہ وقف بورڈوں اور سینٹرل وقف کونسل کے سبھی ممبر سوائے Ex-Officio ممبروں کے مسلمان ہی ہونے چاہئیں۔×