سپریم کورٹ نے اراولی پہاڑی سلسلے کی تعریف میں تبدیلی سے متعلق اپنے اِس سے قبل کے فیصلے پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نے اراولی پہاڑی سلسلے کی نظرثانی شدہ تعریف سے متعلق تشویش کے پیش نظر اپنے طور پر کارروائی کی ہے۔ پہاڑوں کے نازک ماحولیاتی نظام پر اس کے امکانی اثرات کے تعلق سے ماہرینِ ماحولیات کی جانب سے بڑھتی ہوئی نکتہ چینی کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
بھارت کے چیف جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے کے مہیشوری اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل ایک بینچ نے تشویش ظاہر کی ہے کہ ماہرین کی کمیٹی کی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے مشاہدات کا غلط مطلب لیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے 20 نومبر کے فیصلے کو التوا میں رکھتے ہوئے کہا کہ رپورٹ یا عدالت کی ہدایات پر عمل آوری سے قبل مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے اراولی کی تعریف متعین کئے جانے کی غرض سے ماہرین کی ایک نئی کمیٹی کی تشکیل کا بھی حکم دیا ہے تاکہ وہ اس سے متعلق معاملات کا جائزہ لے۔ اس نے مرکز اور اراولی کی چار ریاستوں، راجستھان، گجرات، دلّی اور ہریانہ کو بھی نوٹس جاری کئے ہیں جس میں اُن سے اِس معاملے پر اُن کے جواب طلب کئے ہیں۔
اراولی پہاڑی سلسلے کی مرکز کی جانب سے نوٹیفائی کی گئی نئی تعریف پر اعتراضات کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے جو 100 میٹر کی اونچائی کے Criterion پر مبنی تھا۔ اس ماہ کی 24 تاریخ کو ماحولیات، جنگلات اور آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق مرکزی وزارت نے ریاستوں کو ہدایت جاری کی تھی کہ اراولی میں کانکنی کی کوئی بھی نئی لیز جاری کرنے کے سلسلے میں مکمل پابندی عائد کی جاتی ہے۔
ادھر ماحولیات، جنگلات اور آب وہوا کی تبدیلی کے وزیر بھوپیندر یادو نے سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں جناب یادو نے کہا کہ حکومت اروالی پہاڑ کے تحفظ اور بحالی کیلئے اُن کی وزارت کی جانب سے طلب کئے گئے ہر تعاون کو مہیا کرانے کیلئے پُر عزم ہے۔
وزیر موصوف نے کہا کہ فی الوقت کانکنی کی نئی لیز اور موجودہ لیز کی تجدید پر بھی مکمل پابندی عائد ہے۔