بھارت نے امریکہ کے ذریعے عائد کردہ اضافی محصول پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اِس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اُس کی کارروائی بلاجواز، غیرمنصفانہ اور غیر معقول ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر 25 فیصد اضافی محصول عائد کرنے کے بعد یہ بات کہی گئی ہے۔
وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر سبھی ضروری اقدامات کرے گا۔ اُس نے کہا ہے کہ بھارت نے، اِن معاملات پر اپنے موقف کو پہلے ہی واضح کردیا تھا، جس میں یہ بات کہی گئی تھی کہ ملک کی درآمدات، بازار کے عوامل اور ملک کے 1 ارب 40 کروڑ عوام کے لیے توانائی کی یقینی فراہمی کے مجموعی مقاصد پر منحصر ہوتی ہیں۔
ایک ادارے گلوبل ٹریڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بھارتی درآمدات پر اضافی 25 فیصد محصول عائد کرنے کے امریکہ کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے ریاکارانہ قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی اُس نے روس کے ساتھ تجارت کے معاملے میں اپنے اتحادیوں کے تعلق سے امریکہ کے الگ الگ طرح کے رویّے کو اُجاگر کیا ہے۔
ایک بیان میں گلوبل ٹریڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کچھ اعداد و شمار کا حوالہ دیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے سال 2024 میں روس سے 62 ارب 60 کروڑ ڈالر مالیت کا تیل درآمد کیا تھا، جو بھارت کی 52 ارب 70 کروڑ ڈالر کی درآمد سے زیادہ ہے۔
اس کے باوجود چین پر کسی طرح کا تادیبی محصول عائد نہیں کیا گیا۔ مذکورہ ادارے نے مزید کہا ہے کہ امریکہ نے 2024 میں، روس سے یوروپی یونین کی 39 ارب 10 کروڑ ڈالر کی درآمدات کو بھی نظر انداز کر دیا ہے، جس میں 25 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا تیل بھی شامل ہے۔ مذکورہ ادارے نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے خود اسی مدّت کے دوران روس سے تین ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت کا Strategic سامان درآمد کیا تھا۔
اُدھر فِن لینڈ میں قائم توانائی اور ماحولیات کے لیے سازگار ہوا سے متعلق تحقیق کے سینٹر نے بھی روس سے تیل درآمد کرنے کے معاملے پر امریکہ کے دوہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے۔
مذکورہ سینٹر نے اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت کو ہی نشانہ بنانے کے مغربی ملکوں کے دوہرے معیار کا بھی پردہ فاش کیا ہے، جسے بھارت اُجاگر کرتا رہا ہے۔
اُدھر برازیل کے صدر Lula da Silva نے امریکی صدر ٹرمپ کے بڑھتے ہوئے محصول کے خلاف بھارت سمیت برکس ملکوں کی حمایت کرنے کا عہد کیا ہے۔